لذت میں کھوئی نئی نسل کا علاج
موجودہ دور میں ہمارے خیالات و افکار اور خصوصاً نوجوانوں کے خیالات و افکار کی کشش لنگر اور پتوار دونوں سے محروم ہو کر بحر زندگی کے انجانے پانیوں میں بے مقصد اور بے منزل ہچکولے کھاتی جارہی ہے اور اس طرح کبھی مادیت پرستی کی چٹانوں سے جا ٹکراتی ہے اور کبھی لذتیت کے بھنور میں کھو جاتی ہے تو اس کی عافیت اور پناہ اسی طریق سے ممکن ہے کہ اس کشتی کی محرومیوں کی تلافی کا سامان کیا جائے۔ اس کیلئے پتوار بھی فراہم کیا جائے اور لنگر بھی۔ اس کا مقصد سفر بھی متعین کیا جائے اور اس کی منزل کے طور پر کوئی ساحل مراد بھی۔ جب ہم خدا کے فضل سے مسلمان ہیں تو پھر ہمیں اس کیلئے سازو سامان کہیں باہر سے درآمد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس کشتی کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر سچے اور شعوری ایمان کا پتوار اور خدا خوفی کا لنگر فراہم کر دیجئے اور نوجوانوں کی آوارگی فکر اور ان کے بے عنان ذہنوں کو اطاعت خداوندی کی فطری غلامی سے باندھ دیجئے۔ اس کے بعد ان کی ذہنی پستی کا خودبخود خاتمہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر سچا یقین اور شعوری ایمان حاصل ہونے کے بعد آدمی کو ایسا ذہنی سکون میسر آتا ہے اور ایسا اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے جو اسے اور کہیں سے نہیں مل سکتا۔ اس ایمان کے بعد قناعت، توکل، ایثار اور خلوص کی ایسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں جو ذہنی مزاج کی جڑ کاٹ دیتی ہیں اور یہ نفسیاتی آسودگی عام صحت کیلئے حد درجہ مفید اور نفع بخش ثابت ہوتی ہے ۔رہا یہ سوال کہ یہ علاج علمی طور پر کیسے ممکن ہے تو اس کیلئے سوسائٹی اور نوجوان دونوں کو اپنی اپنی جگہ کوشش کرنا ہوگی۔ سوسائٹی کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی نوجوان پود کیلئے اپنے نظام تعلیم و تربیت میں ایسی وسیع اور دوررس تبدیلیاں کرے اور اپنے ہاں ایسا ماحول پیدا کرے جو ان کے خام ذہن میں صحیح اسلامی عقائد کے نقوش کو پوری طرح ابھار دے اور اس طرح ان کی نفسیاتی آسودگی کا ذریعہ نکل آئے۔ ادھر نوجوانوں کا فرض ہے کہ جس دین اور مذہب کی نعمت انہیں ورثے میں ملی اس کا مطالعہ سن شعور میں داخل ہونے کے بعد فوراً ایک سائنٹیفک انداز میں کریں تاکہ انہیں اپنے دینی عقائد پر سعی کے بجائے حقیقی ایمان لانے کا موقع مل سکے۔
پاکیزہ اخلاق کی ترویج
ہمارا دین برحق جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زندگی گزارنے کے ایک بہترین ڈھنگ سے موسوم کیا گیا ہے اور جس کیلئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بنی نوع انسان میں اخلاقی کمال اور بلندی پیدا کرنے کی خاطر مبعوث کیا گیا تھا۔ انسانی معاشرہ کیلئے ایک نہایت اعلیٰ اورپاکیزہ نظام معاشرت پیش کرتا ہے جس میں تدارک و توازن کی فطری اور حکیمانہ تدابیر کے ذریعے انسانی معاشرہ کو مخرب اخلاق، فواحش کی یلغار سے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ سوسائٹی کے سربراہوں کی ”ذہنی انا“ کو اطاعت خداوندگی کے جذبہ سے مسخر کرنے یا دوسرے الفاظ میں ”انا“ کو مسلمان کر لینے کے بعد اسلام ان تمام صورتوں کا راستہ بند کر دیتا ہے۔ جہاں سے اخلاقی مفاسد یا فواحش سوسائٹی کے اندر پھیل سکتے ہیں۔ یہ نظام جہاں فرد کی اصلاح حیاسے جھکی ہوئی نگاہوں اور ہمہ وقت خدا خوفی کا احساس دلا کر کرتا ہے۔ وہاں معاشرے کی عمرانی زندگی میں بھی زن و مرد کے مخلوط اجماعات اور ان کی مخلوط تعلیم نیز ناشائستہ لٹریچر، سفلی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے مظاہر، آرٹ اور رقص و غنا سے لبریز ثقافت کی ممانعت اور پردہ کے احکام کے ذریعے فواحش کا سدباب کرتا ہے۔ یہ سد باب موجودہ سوسائٹی میں بھی انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی ذرائع سے عین ممکن ہے۔ ضرورت صرف سچے ایمان اور عزم صمیم کی ہے۔
محنت و مشقت سے محبت
تیسرے سبب یعنی آرام پسندی اور تن آسانی کے ازالے کیلئے بھی انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی بنیادوں پر مساعی کی ضرورت ہے۔ انفرادی لحاظ سے تو یہ ضروری ٹھہرتا ہے کہ ہمارے نوجوان محنت اور جفاکشی کی زندگی کو اپنا شعار بنائیں۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دینے یا اپنا بوجھ خود اٹھانے میں کبھی عار محسوس نہ کریں۔ صبح سویرے ہلکی ورزش اور لمبی سیر و ہوا خوری کو اپنا معمول بنائیں اور دن میں زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کی کوشش کریں۔ رات کو جلد سو جائیں اور صبح پوپھٹتے ہی بستر سے نکل آئیں۔ کچھ وقت خدمت خلق کے انفرادی کاموں مثلاً ضعیفوں، غریبوں اور معذوروں کی روزانہ زندگی کی ضروریات میں ان کی عملی مدد میں صرف کیا کریں۔ اس سے انہیں ثواب بھی حاصل ہو گا اور ان کے اندر جفاکشی اور محنت کی عادت بھی تقویت پکڑ جائے گی۔ اجتماعی لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ہماری تعلیم گاہوں میں جفاکشی اورمحنت کا ماحول پیدا کیا جائے، ایسی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو شاہانہ کے بجائے ارزاں ہوں اور حفظان صحت کے نقطہ نگاہ سے ہمارے نوجوانوں میں جلد مقبول ہو سکیں۔ مثلاً کشتی رانی، پیراکی، پہلوانی، کوہ پیمائی، فٹبال وغیرہ۔ تعلیم اور امتحانات کے علاوہ طلباءکے مابین جفاکشی کے مقابلے بھی کرائے جائیں اور تعلیمی زمانے میں مختلف تدابیر کے ذریعے انہیں محنت اور جفاکشی کا زیادہ سے زیادہ عادی بنایا جائے۔
متوازن غذا
ہمارے نوجوان محرک غذاﺅں کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ اعتدال برتیں۔ ان غذاﺅں کا مکمل طور پر اپنی خوراک سے خارج کر دینا نہ تو مناسب ہی ہو گا اور نہ ہی مطلوب ہے۔ البتہ ان کے استعمال کو حد اعتدال میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔ گوشت ، انڈا، مچھلی، سرخ مرچ، گرم مصالحہ جات اور اسی نوع کی دیگر تمام غذاﺅں کو ہمیشہ یا ضرورت سے زیادہ استعمال گوناگوں مفاسد کا باعث بنتا ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ہفتہ میں چار بار یہ غذا استعمال کرنی چاہیے اور گھی سے تیار شدہ تمام غذائیں مثلاً مٹھائیاں،کیک، پیسٹری وغیرہ کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔ ان غذاﺅں کے استعمال میں اعتدال قائم رکھنا اگر اپنے بس کی چیز نہ ہو تو کوشش کی جائے۔ غذاﺅں کے مضر اثرات کے ازالے کیلئے بعض ایسی دیگر غذائیں بھی ان کے ہمراہ استعمال کی جائیں جنہیں اصول طب کی رو سے محرکات کا مصلح مانا گیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں سب سے بہتر سہل الحصول اور ارزاں غذا ”جو“ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کے اندر محرکات کی اصلاح او ر مسکن غذا کے جو خواص رکھے ہیں۔ وہ ہمارے ہاں کسی دیگر غذا میں کم ہی پائے جاتے ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ یہ غذا ہمارے طبیب روحانی و طبیب جسمانی یعنی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی اور غالباً انہی کے ارشادِ گرامی کی تعمیل میں ہمارے بزرگوں کے دور میں جو کا استعمال بہت زیادہ رائج تھا۔ حتیٰ کہ ماضی قریب میں جب ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب کا زیادہ عمل دخل جاری نہیں ہوا تھا تو ہمارے ہاں کی خانہ دار بیبیاں بطور معمول کے روزانہ آٹا گوندھتے وقت مٹھی بھر جو کا آٹا بھی اس میں شامل کر لیا کرتی تھیں اور جو کے ستو کا تو اتنا رواج تھا کہ نئی فصل کی آمد پر شاید ہی کوئی گھر ان سے محروم رہتا تھا۔ ادھر ہمارے کاشتکار بھی اپنے کھیتوں میں گندم کی فصل کے ساتھ ہی جو کی فصل بھی ضرور شامل کرکے بویا کرتے تھے جو کے استعمال کا یہ رواج اگر دوبارہ جاری ہو جائے تو بفضل خدا ویسے ہی مفید اثرات کا ذریعہ بنے گا جیسا کہ قبل ازیں ہوا کرتا تھا اور میرے نزدیک نوجوانوں کے بہت سے جنسی امراض اور ان کی جنسی کمزوریوں اور خصوصاً اتسدادی تدبیر ثابت ہو گا۔ جو کے علاوہ دیگر مسکن غذائیں مثلاً موسمی پھل بھی اس ضمن میں اصلاح و ازالہ کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً مالٹا، نارنگی، موسمی تربوز، سردا، گنے کا رس وغیرہ اپنے اندر کافی مفید اثرات رکھتے ہیں نیز حسب موقع دہی، دودھ، لسی کا استعمال بھی خاصا مفید ہو سکتا ہے۔ اور پنجاب کا قومی مشروب یعنی چاٹی یا( چٹوری )کی چھاچھ تو اس باب میں محیرالعقول اثرات کی حامل ہے جس کا استعمال نوجوان سردیوں اور گرمیوں میں ہر وقت بے خطر کر سکتے ہیں۔ غذا ہی کے سلسلے میں نوجوانوں کو ایک اور بات میں بھی احتیاط برتنا چاہیے اور وہ ہے چائے، کافی، کوک اور قہوہ وغیرہ کی زیادتی۔ ان تمام مشروبات میں ایک چائے کے علاوہ دیگر تمام اشیاءہمارے ملک کی آب و ہوا سے قطعاً کوئی مناسبت نہیں رکھتیں۔ ان اشیاءکا استعمال بطور پیروی مغرب اختیار کرنا گویا پرانے شگون کی خاطر اپنی صحت کی ناک کٹوانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ان اشیاءکے استعمال سے کلی پرہیز لازم ہے۔ اس طرح نوجوانوں کو تمام قسم کی منشیات سے بھی بچنا چاہیے جس طرح لوگ آگ سے بچتے ہیں نشہ آور اشیاءمسلمانوں کے دین کو جتنا خراب کرتی ہیں اس سے کہیں زیادہ ان کی صحت کو تباہ و برباد کرتی ہیں اور نوجوانی کی عمر میں ان کا استعمال کرنا ایک ذلیل قسم کی جوان مرگی کو دعوت دینا ہے۔الغرض ہمارے جوان اپنے دین برحق کے عقائد پر محکم پرخلوص ایمان کے ذریعے اور اپنے اندر ایک پاکیزہ اخلاق کی نمود کے ذریعے اور محنت و مشقت کو اپنا شعار بنانے سے نیز متوازن غذا استعمال کرکے اپنی صحت کا معیارخاصا بلند کر سکتے ہیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں